انگوٹھیوں اور ریشم کا حکم کیا ہے اس بارے میں شیخ عبداللہ بن حامد علی المالکی کا تفصیلی جواب ملاحظہ فرمائیں۔ اس میں آپ نے تفصیلاً یہ بیان فرمایا ہے کہ مردوں کو کس قسم کے زیورات پہننے کی اجازت ہے؟ اور شریعتِ مطہرہ میں انگوٹھیوں اور ریشم کا حکم کیا ہے؟
جواب:
جہاں تک آپ کا سوال ہے کہ مردوں کو کس قسم کے زیورات، بالخصوص انگوٹھی کی شرعی حیثیت کیا ہے اور کیسا لباس پہننے کی اجازت ہے، تو ہم سب سے پہلے ہم دیکھتے ہیں ابن ابی زید رحمۃ اللہ تعالی کیا فرماتے ہیں ۔
’’رسول اللہ ﷺ نے مردوں کو ریشم اور سونے یا لوہے کی انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا ہے۔‘‘
مردوں کے سونا اور ریشم پہننے کی ممانعت صحیح بخاری اور مسلم دونوں میں موجود ہے۔ جہاں تک لوہے کی انگوٹھی پہننے کی ممانعت کا تعلق ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا کرنا ناپسندیدہ ہے، حرام نہیں(حاشیۃ العدوی میں موجود ہے) جیسا کہ سونے اور ریشم کے معاملے میں ہے۔ ریشمی کپڑوں اور قالینوں پر بیٹھنا یا تکیہ لگانا بھی ممنوع ہے جمہور علماء کے نزدیک کیونکہ بخاری شریف کی ایک حدیث میں ریشم کے اوپر بیٹھنے سے منع کیا گیا ہے۔ ابن الماجشون المالکی رحمہ اللہ نے اسے جائز قرار دیا، لیکن ان کی رائے کو ضعیف قرار دیا جاتا ہے۔ جس چیز کی وجہ سے جمہور علماء نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ لوہے کی انگوٹھیاں پہننا محض ناپسندیدہ ہے جس چیز کی وجہ سے جمہور علماء نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ لوہے کی انگوٹھیاں پہننا محض ناپسندیدہ ہے وہ احادیث کے دلائل کے درمیان اختلاف تھا۔
ان میں سے بعض اس کے حرام ہونے کا تاثر دیتے ہیں جبکہ بعض یہ تاثر دیتے ہیں کہ یہ جائز ہے۔ اس کے ناجائز ہونے کے حوالے سے یہ حدیث ہے سیدنا عبد اللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی پاک علیہ الصلوٰۃ و السلام کی بارگاہ میں ایک شخص لوہے کی انگوٹھی پہنے ہوئے حاضر ہوا ،تو آقا علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا :
کیا بات ہے کہ تم جہنمیوں کا زیور پہنے ہوئے ہو ؟
رہی بات جو اس کے جائز ہونے کا تاثر دیتی ہے تو مہر دینے کے بارے میں نبیﷺ کا یہ فرمان ہے کہ
’’(کچھ) تلاش کرو چاہے وہ لوہے کی انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
اس کے بعد جمہور علماء نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ لوہے کی چیزیں پہننا حرام تو نہیں ہے۔ لیکن یہ قطعی طور پر جائز بھی نہیں ہے۔ بلکہ ایسا کرنا ناپسندیدہ ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد کا مقصود حق مہر کی اہمیت تھا، نہ کہ لوہے کی اجازت دینا۔ یا آپ کا محض یہ ارادہ تھا کہ کم از کم لوہے کی انگوٹھی تلاش کر لینی چاہیے تاکہ عورت اس کو بیچ کر اس کی مالیت سے فائدہ اٹھا سکے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
ابن ابی زید رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: “چاندی کو، انگوٹھی (مثال کے طور پر چمڑے کی انگوٹھی) یا تلوار یا قرآن کا نسخہ سجانے کے لیے استعمال کرنا غلط نہیں ہے، لیکن چاندی کو لگام، زین یا چاقو یا اس طرح کی دوسری چیزوں میں نہیں ڈالنا چاہیے۔”
اس بنا پر اپنی انگوٹھی کو چاندی سے سجانا جائز ہے بشرطیکہ وہ کسی ایسی چیز سے بنی ہو جس کو پہننے کی اجازت ہو جیسے کہ چمڑے کی انگوٹھی۔ اگر انگوٹھی لوہے، تانبے یا سیسہ جیسی چیزوں سے بنی ہو تو اسے چاندی سے سجانا اور پہننا جائز نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے جس آدمی کو لوہے کی انگوٹھی پہنے ہوئے دیکھا تھا اس کے بارے میں فرمایا: کیا بات ہے کہ تم جہنمیوں کا زیور پہنے ہوئے ہو ؟ اور اہل جہنم کی زنجیریں اور جوئے لوہے کے ہوں گے۔ جہاں تک تانبے اور اس جیسی چیزوں کا تعلق ہے، تو روایت میں موجود ہے کہ ایک شخص پیتل کی انگوٹھی پہنے ہوئے حاضر ہوا،تو آپ ﷺ نے فرمایا:کیا بات ہے کہ تم سے بُتوں کی بو آتی ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ بت لکڑی، تانبے، چاندی اور اس جیسی دوسری چیزوں سے بنے تھے۔ تو گویا آپ ﷺ نے ایسی چیزیں پہننے والے کو ان کی عبادت کرنے والے کے مشابہ سمجھا۔
یہ احادیث امام مالک رحمہ اللہ کی موطا پر ابن العربی کی تفسیر (القبس في شرح موطأ مالك بن أنس لابن العربي المالكي) میں مل سکتی ہیں۔
جو چیز چاندی کی انگوٹھی پہننے کے جائز ہونے کی تائید کرتی ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ دائیں اور بائیں دونوں ہاتھ کی چھوٹی انگلی (خِنصَر) میں چاندی کی انگوٹھی پہنا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ آپ اسے بنیادی طور پر اپنے بائیں ہاتھ پر پہنا کرتے تھے۔ 4 میں سے پہلے 3 خلفائے راشدین کے پاس یکے بعد دیگرے یہ انگوٹھی شریف موجود تھی۔یہاں تک کہ یہ انگوٹھی حضرتِ عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ساتویں سال میں اریس کے کنویں میں گر گئی۔ اور انگوٹھی میں “محمد رسول اللہ” کے الفاظ کندہ تھے۔ آپ ﷺ اسے سرکاری مہر کے طور پر استعمال فرماتے تھے۔ بخاری، مسلم اور ترمذی میں یہ روایت موجود ہے۔
تلواریں چاندی سے مزین ہوتیں تھیں تا کہ اس کی چمک دشمنان اسلام کے دلوں میں خوف طاری کرے۔ اور قرآنِ کریم کو دوسروں پر اس کی عظمت کی علامت کے طور پر سجایا گیا ہے اور اس یہ بات کی ناشان دہی کرتا ہے کہ مومنین کےلئے قرآنِ کریم کی شان بہت بلند ہے۔
ابن ابی زید رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
لیکن چاندی کو لگام یا کاٹھی یا چاقو یا ایسی دوسری چیزوں میں نہیں ڈالنا چاہئے۔
یہ صرف چاندی سے سجانے کی اجازت کو محدود کرنے کے لیے کہا گیا ہے کہ قانون میں کچھ چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے اور انہیں چاندی سے سجانے کی ترغیب دی گئی ہے، جب کہ قانون میں لگام، زین، چاقو، یا جنگ میں استعمال ہونے والی دیگر چیزوں کو سجانے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ علماء کرام اس امتیاز کو اس حقیقت کے ذریعہ بھی برقرار رکھتے ہیں کہ تلواروں، قرآن یا انگوٹھیوں کو سجانے کے لیے استعمال ہونے والی چاندی پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔ لیکن یہ چاندی سے سجی ہوئی باقی اشیاء پر واجب ہے۔
ابن ابی زید رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: عورتیں سونے کی انگوٹھیاں پہن سکتی ہیں، لیکن (رسول اللہ ﷺ) نے انہیں لوہے کی انگوٹھیوں سے منع فرمایا۔ انگوٹھی پہننے سے متعلق عام انتخاب یہ ہے کہ اسے بائیں ہاتھ پر پہنا جائے، کیونکہ دایاں ہاتھ چیزیں لینے کے لیے استعمال ہوتا ہے: آدمی اپنے دائیں ہاتھ سے کوئی چیز لیتا ہے، پھر اسے بائیں ہاتھ میں رکھتا ہے۔ ریشم سے بُنے کپڑوں (الخَزّ) کے استعمال میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس کی اجازت ہے۔ دوسرے کہتے ہیں کہ یہ نامنظور ہے۔ یہی بات کپڑوں پر ریشم کے بَیجوں (badges) کے بارے میں بھی ہے، جب تک کہ کوئی پتلا ٹکڑا استعمال نہ کیا جائے۔
امام بیہقی رحمہ اللہ تعالی روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس چاندی کی انگوٹھی تھی اور آپ ﷺ اسے اپنے بائیں ہاتھ میں پہنا کرتے تھے۔اور اسی طرح ابوبکر، عمر، عثمان، علی، حسن اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے بھی کیا۔ اور صحیح مسلم میں ذکر ہے کہ رسول اللہ ﷺ اسے اپنے بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی میں پہنا کرتے تھے۔
جہاں تک الخزّہ کا تعلق ہے، تو یہ ایک ایسا لباس ہے جس کا تانے (لمبائی کا دھاگہ) ریشم کے ہیں اور جس کے بانے (چوڑائی کی سمت) اون کے ہیں۔ اس بارے میں مالکیوں کے تین قول ہیں:
1- مباح (ابن العربی)،
2-ناپسند (ابن رشد)، اور
3-حرام (القرافی اور امام مالک کا ظاہری قول)۔
اس حتمی نظریہ کی تائید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث ہے جس میں آپ نے عطارد نام کے ایک صحابی کے بارے میں فرمایا ہے جو بازار میں الخز بیچا کرتا تھا، ’’اسے صرف وہی پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں‘‘۔ بہت سے علماء کے مطابق، عطارد کے بیچے گئے کپڑے اون اور ریشم کا مرکب تھے۔ البتہ بعض روایات میں کہا گیا ہے کہ وہ خالص ریشم تھے۔ ایسی صورت میں نبی ﷺ کا بیان خالص ریشم کی فروخت کی طرف ہو گا۔ اور اسی وجہ سے علماء کا اختلاف ہے۔
جہاں تک لباس پر ریشم کے بَیج کا تعلق ہے تو اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر ریشم کے بیج کا سائز (چوڑائی میں) عام آدمی کی انگلی کے برابر ہو تو جائز ہے۔ لیکن اس کے (چوڑائی میں) 4 انگلیوں سے زیادہ ہونے کے حوالے سے اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ 1 سے 4 تک جائز ہے۔ دوسرے کہتے ہیں کہ 2 سے 4 تک ناپسندیدہ ہے۔
جہاں تک 4 انگلیوں سے زیادہ چوڑائی کا تعلق ہے،تو اس بات پر سب متفق ہیں کہ اسے پہننا حرام ہے۔
اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔