صیامِ رمضان کے احکام کیا ہیں؟

الجواب

صیامِ رمضان کے احکام

صیامِ رمضان سے کیا مراد ہے؟

روزے کو عربی میں “صوم” کہتے ہیں جس کے لغوی معنٰی ہیں کسی ارادی چیز سے رک جانا یا باز رہنا۔ صوم کی جمع صیام ہے۔ یعنی صیامِ رمضان کا مطلب ہوا رمضان کے روزے۔شرعی اصطلاح میں روزے کا مطلب ہے تقرب الٰہی کے حصول کے لیے مسلمان کا بہ نیّتِ عبادت صبح صادق سے غروب آفتاب تک خود کو قصداً کھانے پینے اور جماع سے باز رکھنا۔

ماہِ رمضان کے روزے فرض ہیں جبکہ رجب اور شعبان کے روزے رکھنا مندوب ہے۔

روزہ کس سن ہجری میں فرض ہوا؟

روزے کی فرضیت کا حکم سن دو (2) ہجری میں تحویلِ قبلہ کے واقعہ سے کم و بیش دس پندرہ روز بعد نازل ہوا۔ آیتِ صیام شعبان کے مہینے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نازل ہوئی جس میں رمضان المبارک کو ماہِ صیام قرار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ.
البقرة، 2 : 185

’’رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں۔ پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پا لے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے۔‘‘

جو صیامِ رمضان کے واجب ہونے کا قائل نہ ہو، اس کا کیا حکم ہے؟

صیامِ رمضان (رمضان کے روزوں) کا واجب ہونا قرآن و سنت اور اجماع کے اعتبار سے ثابت ہے۔ جو شخص رمضان کے روزوں کی فرضیت کا انکار کرے وہ متفق علیہ کافر ہے۔ اگر کوئی شخص روزوں کی فرضیت کا اقرار کرتا ہے لیکن روزے رکھنے سے انکار کرتا ہے وہ باغی ہے اور اسے روزے رکھنے پر مجبور کیا جائے گا۔

رمضان المبارک کا وقت ان دو میں سے ایک طریقے سے طے ہوتا ہے:

اگر 29 شعبان کو نیا چاند نظر آنے کی تصدیق ہو جائے تواگلا دن یکم رمضان شمار ہوتا ہے۔

اگر نہیں تو ایک دن اور (یعنی 30 شعبان) کا اضافہ کیا جائے گا، اوراگلے دن یکم رمضان شمار ہوگا۔

اگر نیا چاند بادلوں کی وجہ سے نظر نہیں آتا تو پچھلے مہینے کے شروع سے تیس دن شمار کریں اورپھر روزہ رکھنا شروع کرو۔اسی طرح روزہ ختم کرنے پر بھی لاگو ہوتا ہے۔

رمضان کے روزوں کے لئے شرائطِ وجوب کیا ہیں؟

روزہ جن شرائط کے ساتھ فرض ہوتا ہے وہ یہ ہیں:

مسلمان ہونا

عاقل ہونا

بالغ ہونا

تندرست ہونا

مقیم ہونا

عورت کا حیض و نفاس سے پاک ہونا

دوسرے لفظوں میں کافر‘ پاگل یا مجنون‘ بچے‘ بیمار‘ مسافر اور حائضہ پر روزہ فرض نہیں‘ تاآنکہ پاگل عقل مند‘ بچہ بالغ‘ بیمار صحتمند‘ مسافر مقیم اور حائضہ حالت پاکیزگی میں آ جائے۔

روزے کے ارکان

روزے کی شرعی اور اصطلاحی تعریف سے ہی اس کے ارکان کا تعین ہو جاتا ہے یعنی:

1۔ نیتِ روزہ

2۔ امساک یعنی کھانے پینے سے پرہیز کرنا اور مباشرت سے رکے رہنا

3۔ سحری سے غروبِ آفتاب تک کے معین وقت کی پابندی :

واجباتِ صیام

صیامِ رمضان کے پانچ فرائض ہیں:

  1. غروب آفتاب (مغرب) کے بعد اور صبح صادق(فجر) سے پہلے روزہ کی نیت کرنا۔ اگر فجر کے بعد نیت کی ہو تو اس دن کا روزہ باطل ہے۔مہینے کے شروع میں پورے مہینے کے روزے کی نیت کرلینی چاہیے اور باقی مہینے میں ہر رات نئی نیت کرنا ضروری نہیں ہے۔
  2. تمام جنسی افعال سے پرہیز۔ روزہ دار دن کے وقت ہمبستری نہیں کر سکتا۔نہ کسی عورت کو چھو سکتا ہے اور نہ ہی اس کا بوسہ لے سکتا ہے۔ البتہ رات کے وقت ان میں سے کوئی چیز اس کے لیے حرام نہیں ہے۔ جماع کرنے کی وجہ سے جنابت کی حالت میں صبح اٹھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر آپ کو دن کے وقت چھونے یا چومنے سے جنسی لذت حاصل ہوئی اور اس کے نتیجے میں مذی کا اخراج ہوا تواس دن کی قضاء لازم ہے۔ اگر آپ یہ سب جان بوجھ کر کرتے ہیں اور نتیجتاً(منی) کا انزال ہوتا ہے تو آپ کو کفارہ بھی ادا کرنا ہوگا۔
  3. کھانے، پینے اور سگریٹ نوشی سے پرہیز۔ اپنا تھوک اور بلغم نگلنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ انجکشن مکروہ ہے لیکن روزہ نہیں ٹوٹتا۔
  4. جان بوجھ کر قے سے پرہیز۔ اگر آپ کو رمضان میں روزے کی حالت میں بے اختیار قے آجائے تو آپ پر قضا نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ خود قے کرتے ہیں تو آپ کو ایک دن کی قضاءکرنا ہوگی۔
  5. ناک، آنکھوں یا کانوں یا کسی اور  ذریعے سے معدے میں داخل ہونے یا گلے میں جانے والی چیزوں سے بچنا۔ اس لیے تیراکی، آنکھوں اور ناک میں قطرے وغیرہ  ڈالنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔

دیگر مسائلِ صیام

جس نے غسل نہ کیا ہو وہ حالت جنابت میں فجر کے بعد بیدار ہوا  یا حیض والی عورت کا حیض فجر سے پہلے ختم ہو جائے اور وہ فجر کے بعد غسل نہ کرے تو ان دونوں صورتوں میں اس دن کا روزہ صحیح ہے۔

بچوں پر اس وقت تک روزہ رکھنا واجب نہیں ہے جب تک کہ لڑکے کو پہلی مرتبہ احتلام یا لڑکی کا پہلا حیض نہ آئے کیونکہ جب بچے جسمانی بالغ ہو جاتے ہیں تو ان پر تمام جسمانی عبادات واجب ہو جاتی ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

جب تمہارے بچے جسمانی بالغ ہو جائیں تو انہیں (داخل ہونے کی) اجازت طلب کرنی چاہیے۔ (24:59)

3۔ عید الفطر یا عید الاضحی کے دن روزہ رکھنے کی اجازت نہیں ہے

4۔ اگر بھول سے رمضان کا روزہ ٹوٹ جائے تو صرف اس دن کی قضا ہے۔ اگر آپ بیماری کی وجہ سے روزہ توڑنے پر مجبور ہوں تو بھی یہی بات لاگو ہوتی ہے۔

غروب آفتاب کے وقت جلدی افطار کرنا اور سحری دیر سے کھانا مستحب ہے۔

6۔  ہر قمری مہینے کی 13، 14 اور 15 تاریخ کو روزہ رکھنا مستحب ہے۔  جمعہ کے دن روزہ رکھنا جائز ہے۔

 روزے کی حالت میں کسی چیز کا مزہ چکھنا مکروہ ہے اور اگر چکھ لیا جائے تو منہ سے تھوکنا ضروری ہے۔

8۔ اگر آپ کسی ایسے سفر پر ہیں جس کے لیے آپ نماز قصر ادا کر سکتے ہیں تو آپ کو روزہ افطار کرنے کی اجازت ہے اگرچہ اس کی کوئی خاص ضرورت نہ ہو، بعد میں کسی بھی دن  اس کی قضاء کی ادائیگی کر لیں، لیکن ہمارے نزدیک روزہ رکھنا افضل ہے۔ اگر کوئی شخص 48 میل سے کم سفر کرے اور یہ سوچ کر روزہ توڑ دے کہ ایسا کرنا جائز ہے اور اس پر کفارہ نہیں ہے، البتہ اس دن کی قضا لازم ہے۔

9۔ ’’یوم شبہ‘‘ کا روزہ رکھنا منع ہے، اگر آپ اس بنیاد پر روزہ رکھتے ہیں کہ شاید یہ رمضان کا حصہ ہو تو بھی یہ اس میں شمار نہیں ہوگا چاہے رمضان ہی کیوں نہ ہو۔

10۔ اگر آپ صبح اٹھیں اور کچھ کھانے پینے سے پہلے معلوم ہو جائے کہ رمضان شروع ہو چکا ہے تو آپ اس دن کاروزہ ضرور رکھیں گے لیکن آپ اسے نیت کی کمی کی وجہ سے اپنے رمضان کے دنوں میں شمار نہیں کر سکتے اور آپ کو ایک دن کی قضاء کرنی ہو گی۔

11۔ اگر کوئی سفر سے واپس آئے اور اس نے روزہ نہ رکھا ہو یا عورت کا حیض دن میں ختم ہوا تو ان دونوں صورتوں میں اس دن کے باقی حصے میں ان کے لئے کھانا پینا جائزہے۔

12۔ روزہ کی حالت میں دن میں کسی بھی وقت مسواک استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس سے کوئی چیز ٹوٹتی نہ ہو۔

13۔ اگر حاملہ عورت کو رحم میں بچے کی وجہ سے کوئی خوف ہو تو اس کےلئے روزہ توڑنا جائز ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Telegram
WhatsApp
Print
Pinterest
Tumblr

سوشل میڈیا پر ہماری موجودگی

معذرت ! مواد کاپی نہیں کیا جا سکتا